اِنصاف کا مطالبہ

میں مایوس ہوجاتا ہوں جب سوشل میڈیا پر کسی کو انصاف کے لئے آواز اُٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جو اب ہمارے ملک میں معمول بن چکا ہو۔

  انصاف کےمطالبہ کے ساتھ شخص ہی بدلہ ہوتا ہے لیکن انصاف  کی پکار اُدھر ہی رہتی ہے۔شاید ایسی خبریں سُن کر آپ  جوش سے بھر جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر میں حکومت میں ہوتا یا میرے  پاس بہت اثرورسوخ ہوتا تو میں فوراً انصاف فراہم کردیتا۔

اکثراوقات ایسی مہم چلانے سے انصاف مل بھی جاتا ہےلیکن اُس کے بعد کوئی نہ کوئی انصاف کا طلبگار نکل ہی آتاہے۔افسوس اس بات کا بھی ہے کہ حکومت وقت کا نعرہ انصاف ہے اور اس موجودہ حکومت کے دور میں عوام کو انصاف کا مطالبہ نہیں بلکہ اعتماد  کے ساتھ انصاف حاصل کرنا چاہئے۔

اس موجودہ حکومت کے دور میں عوام کو انصاف کا مطالبہ نہیں بلکہ اعتماد  کے ساتھ انصاف حاصل کرنا چاہئے۔

آپ کہیں گے کہ ہمارے لئے قانون بھی ہے اورہمارے حقوق بھی ہیں پھر بھی انصاف کے لئے مہم کیوں چلائی جاتی ہے؟ کیا حکمران اور عدالتیں ان باتوں سے لاعلم ہیں؟ یا وہ جانتے ہوئے بھی ان معاملات کو نظرانداز کر رہیں ہیں؟

میں حکومت پر الزام نہیں لگانا چاہتا کیونکہ وہ ہمارے لوگوں کی عکاسی کرتے ہیں یعنی جیسے ہم ہیں ویسے ہی ہمارے حکمران ہیں۔ایک مصنف کا کہنا ہے کہ حکمران ایک ایسا آئینہ ہے جو مجھے اور آپ کو ظاہر کرتا ہے۔

جب زیادتی کا کیس سامنے آتا ہے تو کچھ لوگ مجرم کو سرِعام پھانسی دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور کچھ کہتے ہیں کہ سرِعام پھانسی بھی تو انسانیت نہیں ہے۔کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ جنگل کا قانون نافذ ہو۔  ہمارے ملک میں ایسے  کیس بھی آئیں ہیں جہاں بے گناہ اور غریب قید خانوں میں رہ جاتے ہیں اور عدالتوں کا چکر لگاتے رہتے ہیں لیکن انصاف نہیں ملتا لیکن  جس پر جرم  ثابت ہوگیا ہو وہ سرِعام آزاد گھومتا ہے۔کیا اس ملک میں آپ کو یہ اعتماد ہے کہ سرِعام پھانسی صرف مجرم کو ہی ملے گی؟ یا پھر پھانسی اُسے دی جائے گی جس کے پاس اتنی دولت نہیں کہ وہ اپنا اچھا سا وکیل کروا سکے؟یا  سادہ لفظوں میں انصاف خرید سکے۔

چند ماہ پہلے بی۔بی۔سی نیوز اردو  نے ایک خبر نشر کی کہ ایک بارہ سالہ مسیحی لڑکی فرح کا کہنا ہے کہ اُسے گذشتہ موسم گرما میں اغوا کیا گیا اور بیڑیوں کے ساتھ باندھا گیا اور اُسے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا اور اس نے اپنے اغوا کار سے شادی کرلی۔ بی۔بی۔سی نیوز کا کہنا تھا کے ایسے واقعات ملک میں ہر سال ہوتے ہیں جس میں سینکڑوں نوجوان مسیحی ، ہندو اور سکھ خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ فرح کا کہنا تھا کہ

مجھے زیادہ وقت باندھے رکھا گیا اور مجھے اغوا کار کے گھر کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ باہر صحن میں موجود جانوروں کی دیکھ بھال کرنے کا بھی حکم دیا جاتا تھا۔ جوکہ میرےلئے خوفناک عمل تھا۔ میں نے رسی کو کاٹنے اور زنجیروں کو اتارنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی اور میں  ہر رات یہ دعا کرتی ،خدایا ، میری مدد کر

ایسے واقعات سُن کرمعاشرے پر غصے ہو جانا جائز ہے۔ لیکن میں اور آپ ایسے واقعات کی سوشل میڈیا پر آواز اُٹھانے کے علاوہ اور کیا کر سکتے ہیں؟

 انجیل نہ صرف ہمیں گناہ کی غلامی سے آزادی کی خبر دیتی ہے بلکہ یہ ہمیں خود انکاری یعنی دوسروں کے لئے جینے کا سبق بھی دیتی ہے۔ انجیل ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونے اور اُن کا دفاع کرنا بھی سیکھاتی ہے۔ بجائے اس کے مظلوم پر الزام لگائیں اُس کی مدد کریں اور اُس کا سہارا بنے۔آپ کے اردگرد بہت سے لوگ مختلف مشکلات سے دوچار ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ آپ اُن کی مددکر سکتے ہیں اور یہ کہہ دینے سے  کہ جب میری حکومت ہوگی یا جب میرے پاس زیادہ دولت ہوگی تو میں یہ یا وہ کردونگا سے کچھ نہیں ہوگا اس لئے جن لوگوں تک آپ کی رسائی ہے اُن کی تو مدد کریں اور اُن کا حوصلہ بنے۔اگر میں اور آپ تبدیل ہوں گے تو بہت کچھ تبدیل ہوگا۔آپ مظلوموں کی آواز بن سکتے ہیں۔ آپ اُن کے لئے دعا کر سکتے ہیں۔آپ اُن کی رہنمائی کرسکتے ہیں۔

 خدا آپ کو برکت دے۔

Leave a Comment