ہم انسان نجانے آرام کی تلاش میں کیا کیا کر جاتے ہیں اور اُس آرام کی تلاش میں خود ہی خود کو نقصان پہنچاتے رہتے ہیں لیکن بہت دفعہ آرام دہ جگہ ہماری زندگی کو بے معنی اور بے مقصد بنا دیتی ہے۔ جب معنی حیز زندگی کی بجائے آرام دہ زندگی ہی منزلِ مقصود بن جائے تو زندگی بہت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ایسی زندگی جو بامقصد ہو چاہے مشکل اور کٹھن ہی کیوں نہ ہو زیادہ بہتر ہے اُس زندگی سے جس میں دنیا کی ساری دولت اور آرام ہو۔
جس شخص کے سامنے منزل ہو وہ اکثر مشکلات کا سامنا بہادری سے کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کے جب میں اپنی منزِل پر پہنچ گیا تو یہ کٹھن راستے ایک یاد رہ جائیں گے اور اِن راستوں کی پیچیدگی آسان بن جائے گی۔
ہم فطرتی نظام سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ جیسےمادہ عقاب بہت محنت سے اپنا گھونسلا بناتی ہے اور جب اُس کے بچے ہوتے ہیں تو وہ اُن کے لئے کھانا تلاش کر کے فراہم کرتی ہے لیکن اپنے بچوں کو پرواز سیکھانے کے لئے وہ اپنا گھونسلا تباہ کرنا شروع کر دیتی ہے اور اُن کو پرواز کے لئے دھکیلتی ہے جو مشکل اور کٹھن معلوم ہوتا ہے اور وہ یوں اُنہیں پرواز سیکھاتی ہے۔ آغاز میں پرواز کا عمل خوفناک محسوس ہوتا ہے لیکن اس عمل کے بغیر پرواز بھی ممکن نہیں۔
ہم شاید اپنی زندگی میں بہت کچھ کرنا چاہتے ہوں اور اونچی اُڑان کی اُمید بھی رکھتے ہوں لیکن اگر ہم اپنے آرام دہ گھونسلے کو نہیں چھوڑیں گے تو زندگی میں اونچی اُڑان بھی نصیب نہیں کر پائیں گے۔ ہم ایک جگہ میں رہ کر نہیں سیکھ سکتے بلکہ ہمیں کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے یعنی ہمیں آرام کو الوداع اور مقصد کو خوش آمدید کہنا پڑتا ہے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ اپنی ذمہ داریوں سے انحراف کر جائیں کیونکہ ذمہ داریاں نبھانا ہی قیادت ہے۔
اور اگر آپ اونچی پرواز چاہتے ہیں اور اپنی آرام گاہ میں بھی قیام کرنا چاہتے ہیں پھر عقاب کی پرواز آپ سے بالاتر ہے۔ کیونکہ جب زندگی جینے کی درخواست کرتی ہے تو وہ آرام دہ جگہ کو چھوڑ کر با مقصد زندگی کی طرف جاتی ہے جو آسان نہیں ہوتی پر اِس کا یہ مطلب نہیں کے ایسی زندگی سے لُطف اندوز نہیں ہوا جاتا۔
ایسی زندگی بعض اوقات آسان نہیں ہوتی لیکن زندگی ایک بار ہی تو ملتی ہے اِس لئے اپنے خوابوں کو تھامے اور پرواز کریں۔