مُسکرانا لباس پہننے کی طرح معمول بن چُکا ہے

زندگی کے سفر میں بچپن جاتا رہتا ہے اور سفر چلتا رہتا ہے اور ہمیں یاد کرواتا رہتا ہے کہ اب ہم بچے نہیں رہے بلکہ بڑے ہوگئے ہیں ۔

اب ماجرہ یہ ہے کہ کچھ باتیں ہم بُھول نہیں پاتے اور جو باتیں یاد کرنا لازم ہوں وہ بُھول جاتے ہیں۔ پھر ہم ایسا قدم اُٹھا جاتے ہیں جس کے لئے ہم عمر بھر پچھتاتے رہتے ہیں لیکن اب ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟  شاید انسان ہونے کا احساس  یہی ہے کہ ہم بے یارو مددگار ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم بڑے ہوگئے ہیں۔

کل کی فکر نہ کرتے ہوئے جو ہنس لیا کرتے تھے اب فکر ہمیں دیکھ کر ہنستی رہتی ہے۔ پہلے چھوٹی سی چوٹ لگتی تو رو لیا کرتے تھے اب گھائل بھی ہوجائیں تو اُف تک نہیں کرتے ہیں۔ زندگی ناجانے کس موڑ پر لے آئی ہے کہ اب خوابوں کو دفنا کر جینا پڑتا ہے

کاش اب کوئی میرے رونے کے لئے آنسو دے اور میری چلاہٹ کو آواز دے کیونکہ اب زخم سے زیادہ زخم کے نِشان تکلیف دیتے ہیں اور مُسکرانا لباس پہننے کی طرح معمول بن چُکا ہے۔

اب گر جائیں تو کوئی اُٹھانے نہیں آتا ہے اب ہر شخص تماشا دیکھنے والا لگتا ہے۔ یہ کیسی کیفیت تاری ہوگئی ہے کہ اجنبی دوست اور دوست اجنبی سا لگتا ہے۔

لیکن میرا خدا مجھے اپنے پروں میں چھپا لیتا ہے گر بھی جاؤں تو اُٹھا لیتا ہے۔ جب حالاتوں سے تھک جاؤں تو مجھے تھام لیتا ہے اکیلا نہیں چھوڑتا بلکہ ساتھ رہتا ہے وہ میرا خدا ہے میری اُمید بن جاتا ہے۔

مجھے جانتا ہے وہ اور یہ میرے لئے کافی ہے مجھے سنبھالتا ہے وہ اور یہ اُس کی وفاداری ہے۔ زندگی کا سفر چلتا رہتا ہے لیکن خدا پر توکل میرا حوصلہ بلند کرتا ہے۔ اُس کی طرف سے میری مدد ہے وہ مجھے بے یارومددگار نہیں رہنے دیتا ہے۔ اُس پر ایمان لانے سے کبھی پچھتایا نہیں ہوں میں۔ اب بڑا ہوگیا ہوں لیکن اُس کے لئے بچہ ہی ہوں  میں۔

 جب ہم اُن حالات اور لوگوں کے آگے مُسکرانا سیکھ جاتے ہیں جو ہمیں اپنا مُطیع بنانے کی کوشش کرتے ہیں پھر مُسکرانا ہماری سُپر پاور بن جاتا ہے۔ اس لئے ہر حالات میں مُسکرانے کا ہنر رکھتے ہیں کیونکہ خداوند ہمارا زور بن جاتا ہے۔

4 thoughts on “مُسکرانا لباس پہننے کی طرح معمول بن چُکا ہے”

Leave a Comment