اے کم اعتقادو! ڈرتے کیوں ہو؟

طوفانوں کا ہماری زندگیوں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ طوفانوں کی حاصیت یہ بھی ہے کہ اِن کے آنے سے ہم اپنی زندگی کا مقصد اور ترجیحات اور شخصی حیثیت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ طوفان ہمارے اندر مستقبل کا خوف ڈال دیتا ہے اور ہمیں منزلِ مقصود سے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ متی ۸ باب۲۳ تا ۲۷کےاقتباس میں ہم دیکھتے ہیں کے طوفان آگیا ہے لیکن یسوع اُس طوفان میں سو رہا ہے۔ جو شاگرد ماہی گیر تھے وہ جانتے تھے کہ طوفان اُنہیں ہلاک کرسکتا ہے۔ لکھا ہے جب طوفان آیا تو شاگردوں نے کہا اے خداوند ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں۔ یسوع کو طوفان نیند سے نہ جگا سکا مگر شاگردوں نے اُسے نیند سے جگا دیا۔

یسوع نے اُٹھ کر اُن سے کہا اے کم اعتقادو! ڈرتے کیوں ہو؟ آج بھی جب ہم خوفزدہ ہوجاتے ہیں تو خداوند ہماری زندگی کے طوفانوں میں ہمیں یہی کہتا ہےکہ اے کم اعتقادو! ڈرتے کیوں ہو؟

یسوع مسیح نے اُٹھ کر طوفان کو ڈانٹا اور لکھا ہے کے بڑا امن ہوگیا۔ اُس کا کشتی میں سو جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ کامل انسان ہے لیکن اُس کا طوفان کو تھما دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کامل خدا بھی ہے جو ہوا اور پانی کو حکم دیتا اور وہ اُس کا حکم مانتے ہیں۔

طوفان میں خدا پر اعتقاد رکھنے سے دوعملی اقدامات ہماری زندگی میں ہوتے ہیں۔

شکرگزاری

ہر ایک بات میں شکرگزاری کرو کیونکہ مسیح یسوع میں تمہاری بابت خدا کی یہی مرضی ہے۔ طوفان ہیں یا نہیں لیکن ہر بات میں شکرگزاری اس کا ثبوت ہے کہ آپکا اعتقاد خداوند پر ہے اور نہ کے زندگی کے حالاتوں پر۔ ہمارے بائبل کالج کا ایک مشنری دورہ جنگل میں تھا اور جدھر ہم تھے وہاں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں تھی بلکہ ہمیں بہت میلوں دور جانا پڑتا تھا اور ہمارے ایک کنیڈین اُستاد تھے جو خود پہلی دفعہ ہمارے ساتھ جنگل میں آئے تھے۔ جب وہ واپس اپنے مُلک میں گئے تو کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بیت الخلاء کو جا کر گلے سے لگا لیا اِس لئےکیونکہ ہم اکثراوقات زندگی میں یہ چھوٹی سے چھوٹی نعمتوں کی شُکرگزاری بھول جاتے ہیں۔

 دوسروں کے احوال پر بھی

ایک ناصح تھا جو ڈپریشن سے شکار لوگوں کی مدد کرتا تھا۔ اُس سے کسی نے سوال کیا کہ وہ لوگ جو ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں اور خودکشی کے خیالاتوں سے اُلجھے ہوتے ہیں اُنہیں کونسی ایسی ترکیب آپ پیش کرتے ہیں جس سے  وہ ایسے حالاتوں کا سامنا مضبوطی سے کرسکتے ہیں؟ اُس نے کہا جب ہم  اپنے احوال پر نہیں بلکہ دوسروں کے احوال پر بھی نظر کرتے ہیں تب ہم اِن خیالات کا سامنا مضبوطی سے کر سکتے ہیں یعنی دوسرے لوگوں کی مدد کر کے یہ جانتے ہوئے کہ ہم اکیلے نہیں ہیں کیونکہ دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ اُنہیں بھی طوفانوں کاسامنا ہوتا ہے لیکن آپ کا مُشکل وقت میں بھی کسی کی مدد کرنا ظاہر کر دیتا ہے کہ آپ کا اعتقاد خدا پر ہے اور آپ کی نظر صرف اپنے احوال پر نہیں لگی۔

خدا پر اعتقاد رکھنے سے ہم اپنی ز ندگی کے طوفانوں میں شُکرگزار رہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہے اور وہ طوفانوں میں بھی تخت نشین ہے۔ اُس پر اعتقاد رکھنے سے ہی ہم طوفانوں میں بھی لوگوں کی مدد کرنے کا دِل رکھتے ہیں کیونکہ ہم خدا کے فرزند ہیں اور اُس نے ہمیں اختیار دیا ہے اس لئے اپنے احوال پر نہیں بلکہ دوسروں کے احوال پر بھی۔ آمین

حوالہ جات :متی 8:23-27، ا تھِسلُنیکیوں 5: 18 ،  فلپیوں 2:4

Leave a Comment