لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہوں

متی 5: 43 – 45

متی رومی حکومت میں محصول لینے والا اور یہودیوں کے نزدیک غدار تھا۔ یہودی رومی حکومت کے فرما بردار نہیں رہنا چاہتے تھے اور اگر کوئی یہودی رومی حکومت کے زیر کام کرتا تو اُسے برادری سے خارج شدہ اور خاندان کی شرمندگی کا باعث سمجھتے تھے۔ ایسا شخص اُن کے نزدیک ساتھی نہیں بلکہ دُشمن تھا۔ متی اپنی کتاب میں یسوع مسیح کے پہاڑی وعظ کو لکھتا ہے جو خود محصول لینے والا اور اُس وقت یہودیوں کی اپنے لئے عداوت کا تجربہ رکھنے والا تھا لیکن مسیح کی محبت نے اُسے جیت لیا اور اُس نے محصول لینے والے متی کو کہا  کہ میرے پیچھے ہو لے۔ اِس واقعہ سے ہمارے لئے تسلی یہ ہے کہ معاشرے میں ہم نے جتنی بھی عداوت کا تجربہ کیا ہو لیکن مسیح کی محبت ہم تک پہنچ جاتی ہے اور ہمیں بچا کر نیا بنا دیتی ہے۔ یسوع مسیح اُس وقت کی یہودی تعلیمات سے واقفیت رکھتے تھے اور وہ جانتے تھے کہ لوگوں کے ذہن میں کیا چل رہا ہے وہ جانتےتھےکہ محصول لینے والوں سے کیا سلوک رکھا جاتا ہے۔ یسوع مسیح نے اُن کی موجودہ تعلیمات کو چلنج کرتے ہوئے بتایا کہ خدا کی مرضی کیا ہے۔

تم سن چُکے ہو یعنی یہ تمہاری سوچ کا حصہ اور ثقافتی معمول بن چُکا ہے۔ تم نے آدھا سچ سُنا ہے اور محصول لینے والوں کے بارے میں بھی تمہیں بتایا گیا ہے کہ وہ شرمندگی کا باعث اور غدار ہیں اور اِس لئے اُن سے بھی عداوت رکھنا جائز ہے کیونکہ وہ دُشمنوں کے زمرے میں آتے ہیں۔

 تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت (متی  ۴۳:۵) 

یہ عبارت ہم پرانے عہد نامہ کی تیسری کتاب (احبار ۱۹:۱۸ )میں دیکھتے ہیں جہاں لکھا ہے کہ اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت رکھ اور اِس آیت میں ہمسایہ سے محبت کا کہا گیا ہے دُشمن سے عداوت کا نہیں۔

یہودیوں کے نزدیک پڑوسی وہ تھا جو اُن کے جیسا تھا یعنی اُن کے قواعد و ضوابط پر چلنے والا اور اگر کوئی خلاف ورزی کرے پھر اُس سے عداوت رکھنا شروع کر دیتے۔ میرا پڑوسی کون ہے؟ یہ سوال یسوع مسیح سے پوچھا گیا اور اُس نے نیک سامری کی کہانی سنائی جس سے ظاہر ہوا کہ میرا پڑوسی وہ بھی ہے جو میرے جیسا نہیں ہے اور اُس نیک سامری نے اُس شخص پر رحم کیا اور مدد کی اور اُس سے یہ نہ پوچھا کے تیری ذات کیا ہے۔ کیا تو بھٹی ہے یا گلِ یا مٹو؟ بلکہ اُس کو زمین پر دیکھا اور اُس کی مدد کی۔ آج کتنے زمین پر گِرے ہوئے لوگوں کو میں نے اور آپ نے اُٹھایا اور مدد کی ہے؟

میرا دُشمن کون ہے؟ میرا دُشمن وہ ہے جو مجھ جیسا نہیں ہے بلکہ ہم اُس کی موجودگی کو اپنا نقصان سمجھتے ہیں۔ جس شخص سے ہماری عداوت ہو ہمارا دِل کرتا ہے کہ دوسرے بھی اُس سے ویسی عداوت رکھیں۔ آج بھی ہم کلام کی آیات کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کر جاتے ہیں اور لوگوں سے عداوت رکھنے  کے جواز ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ احبار ۱۹: ۳۴  میں لکھا ہے کہ

بلکہ جو پردیسی (یعنی تیرے جیسا نہیں ہے)تمہارے ساتھ رہتا ہو اُسے دیسی کی مانند سمجھنا بلکہ تو اُس سے اپنی مانند مُحبت کرنا اِس لئے کہ تم ملک مصر میں پردیسی تھے میں خداوند تمہارا خدا ہوں۔
لیکن میں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو (متی ۴۴:۵) 

یونانی میں محبت اور دُعا کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ ایک حکمیہ تاثر ہیں۔ یسوع مسیح غلط تعلیم اور اُن کی من گھڑت کلام کے تصور کی نشاندہی کرتے ہوئے حکم دیتے ہیں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ یہ یسوع کا حکم ہے اُن سب کے لئے جو اُس کے پیچھے چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اگاپے ایسی محبت ہے جو کسی کے لئے بھلائی کا کام کرتی ہے اور اُس شخص کے لئے بہتری چاہتی ہے اِس لئے یہ محبت غیرمشروط ہے۔ ہم نے بھی محبت رکھنی ہے اُن لوگوں سے جو ہماری جیسی سوچ نہیں رکھتے اور ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں امثال ۲۵: ۲۱ میں لکھا ہےکہ

 اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تُو اُسے روٹی کھلا اور اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا

دُشمن کو بھوکا دیکھ کر اُسے روٹی کھلانا مسیحی تعلیم ہے کیونکہ کلام میں محبت اسم نہیں بلکہ فعل ہے۔ یہ محبت دوسرے کی بھلائی کے لئے کام کرتی ہے اور معاوضہ نہیں مانگتی۔ یہ دُشمن سے بھی ایسا سلوک رکھتی ہے جیسے وہ کوئی اپنا ہو۔۔

جب تک ہم مسیح کو تکتے رہیں گے محبت کرتے رہیں گے اور جب اُسے تکتے نہیں رہیں گے پھر عداوت تو رکھیں گے۔رومیوں ۸:۵ میں لکھا ہے کہ لیکن خدا اپنی محبت کی خوبی ہم پر یوں ظاہر کرتا ہے کہ جب ہم گنہگار ہی تھے تو مسیح ہماری خاطر موا ۔اِسی حوالے کی دسویں آیت میں لکھا ہے کہ باوجود دُشمن ہونے کے خدا سے اُس کے بیٹے کی موت کے وسیلہ سے ہمار میل ہوگیا۔ ہم بھی خدا کے دُشمن تھے کیونکہ گناہ کی گرفت میں تھے اور خدا سے جدا ہوگئے تھے لیکن یسوع مسیح ہم دُشمنوں کی خاطر موا تاکہ ہم گناہ کی غلامی سے آزاد ہوکر اُس کے ہوجائیں۔ اِس لئے ہم خدا کی بے انتہا محبت کو مسیح میں حاصل کرتے ہیں۔ یوحنا کے خط میں لکھا ہے ہم اِس لئے محبت رکھتے ہیں کہ پہلے اُس نے ہم سے محبت رکھی۔ اِس لئے دُشمن سے محبت رکھنے سے پہلے مجھے اور آپ کو جاننا ہوگا کہ اُس نے ہم سے پہلے محبت رکھی۔

جب لوگ اپنے بچوں کو یسوع کے پاس لے کر آئے کہ یسوع اُن پر ہاتھ رکھ کر برکت دے تو اِس آیت میں برکت کا لغوی ترجمہ دُعا کا ہے لیکن اِس کا ترجمہ برکت بھی بجا ہے یہی لفظ یونانی کا ہمیں متی ۴۴:۵ میں ملتا ہے جس کا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ستانے والوں کے لئے برکت چاہو۔ جب ہم کسی کے ستانے کے بدلے لعنت کریں گے تو لعنت کا پہیہ چلتا جائے گا مگر لعنت کے بدلے برکت چاہیں گے تو یہ پہیہ ٹوٹ جائے گا۔ یسوع مسیح بتا رہیں ہیں خدا کی مرضی تمہارے لئے کیا ہے اور وہ چاہتا کہ تم محبت اور دُعا کرو اور نتیجہ خدا پر چھوڑ دو۔

دُشمنوں سے محبت اور ستانے والوں کے لئے دُعا کیوں؟

تاکہ تُم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے (متی ۴۵:۵)

یسوع مسیح نے اپنی زندگی بدوں اور نیکوں دونوں کے لئے دی اور دونوں ہی مسیح پر ایمان لانے سے نجات پاتے اور آسمانی باپ کے فرزند ٹھہرتے ہیں۔ لوگ کیسے جانے گے کہ ہم اُس کے فرزند ہیں اور ہمیں نجات مل گئی ہے؟ جب ہم دُشمنوں سے محبت اور ستانے والوں کے لئے دُعا کریں گے۔ گالی کے بدلے گالی نہیں دیں گے اور لعنت کے بدلے لعنت نہیں کریں گے بلکہ لعنت کے بدلے برکت اور عداوت کے بدلے محبت کریں گے۔ اگر آپ مسیحی نہیں ہیں پھر آپ کے لئے دُشمنوں سے محبت کرنا لازم نہیں ہے لیکن اگر آپ مسیحی ہیں پھر کوئی دوسرا چناؤ نہیں ہے۔ متی جس نے بہت سے یہودیوں کی عداوت کو دیکھا اور محسوس کیا وہ یسوع کی اِس تعلیم سے کتنا متاثر ہوا ہوگا؟ یسوع کی محبت نے اُس کو بدل دیا۔ ایک محصول لینے والا اب یسوع کا پیروکار بن گیا تھا اور اُن لوگوں کی خدمت کرتا رہا جو اُسے ایک وقت غدار اور خاندان کے لئے شرمندگی کا باعث سمجھتے تھے۔ آئیں ہم بھی عداوت نہ رکھیں بلکہ محبت اور دُعا کریں تاکہ اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے فرزند ٹھہریں۔

Leave a Comment