میں زیادہ سیانا ہوں

اپنے کام سے کام رکھنے کے لئے نظم و ضبط چاہئے اگر دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا زندگی کا شیوا بن جائے پھر اپنے معاملات خراب رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے آج ہمارے پاس ہر ایک شخص کے لئے نصیحت ہے اور ہر حکومتی اور معاشرتی صورتِ حال کو حل کرنے کی تجویز ہے۔ ہم اپنی رائے سوشل میڈیا پر دیتے رہتے ہیں لیکن تب بھی کوئی لائحہ عمل دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن اچھا ہے کے ہم اپنی آواز کا استعمال کریں کیونکہ وہ کسی کان میں ضرور جائے گی اور اُس کی حسبِ ضرورت مدد کرے گی۔ اِس لئے اپنے حق کی آواز کو خاموش نہ رکھیں خاص کر وہ آواز جو کسی کی مدد کی التجا  کے لئے اُٹھائی جاتی ہے۔

ٹانگ اڑانا ہندی زبان کا ایک محاورہ ہے اِس کا مطلب دخل دینا یا بیچ میں بولنا۔ جو کام آپ کا نہیں ہے اُس میں اپنی رائے دینا یا بتانا کے میں زیادہ سیانا ہوں۔

دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانا نفسیاتی مسئلہ ہے کیونکہ یہ ہمیں اپنے مسائل پر غور کرنے کی بجائے دوسروں کے مسائل کی طرف توجہ کرواتی ہے اور ہمیں کچھ دیر کے لئے عارضی ذہنی سکون دیتی ہے جیسے منشیات کا عادی شخص ہر ایک حربہ استعمال کرے گا کے اُسے کہیں سے منشیات مل جائے چاہے اپنے گھر کا سازو سامان ہی کیوں نہ بیچ نہ پڑے ایسے ہی اُس شخص کی حالت ہے جو ہر ایک معاملے میں اپنی ٹانگ اڑاتا ہے کیونکہ اُسے بیچ میں بولنے کی عادت لگی ہوتی ہے اور جب تک اُسے کسی کی بات نہ مل جائے  اُسے نیند نہیں آتی اور اُسے لوگوں کے معاملات سُننے کا نشہ ہوتا ہے۔

   جب آپ کی توانائی اور مشکل حل کرنے کی صلاحیت دوسروں کے معاملات کے حل میں لگ جاتی ہے  پھر جو چیزیں واقعی آپ کی توجہ کی حامل ہیں اُن کو حل کرنے کی توانائی آپ میں نہیں رہتی۔ اِس لئے اپنے آپ کو پہچانے کے آپ کون ہیں اور آپکی زندگی کی کیا نعمتیں ہیں تاکہ اُن کو جانتے ہوئے اپنی ترجیحات تعمیر کر سکیں۔

سقراط کہتا ہے کہ یہ احساس ہونا کہ میں نہیں جانتا اِس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان یہ غلط گمان رکھے کہ وہ جانتا ہے۔ اگر ایک شخص غلطی سے یہ سمجھ بیٹھے کہ اُسے جہاز چلانا آتا ہے اور پھر وہ جہاز کا کپتان بن جائے تو اپنے ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈو بے گا لیکن اگر اُسے اس کا احساس ہو کہ اُسے جہاز چلانا نہیں آتا تو وہ ایک مسافر کے طور پر سفر کرے گا تو خود بھی محفوظ رہے گا اور دوسرے بھی بچے رہیں گے۔

پطرس کے پہلے خط کے چار باب میں لکھا ہے کہ جن کو جس جس قدر نعمت ملی ہے وہ اُسے خدا کی مختلف نعمتوں کے اچھے مختاروں کی طرح ایک دُوسرے کی خدمت میں صرف کریں۔ ہمیں حکمت کے لئے دُعا کرنی چاہئے کے ہمیں کہاں بولنا ہے اور کہاں خاموش رہنا ہے۔ آپ کی زندگی کا کام خدا نے آپ کو انفرادی طور پر سونپا ہے اِس لئے اپنے کام سے کام رکھنے کا عہد کر لیں اور جو نعمت آپ کو ملی ہے وہ ایک دوسرے کی خدمت کرنے کے لئے ہے نہ کہ ایک دوسرے کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی تاکہ آپ وہ کام کر سکیں جس کے لئے آپ کو بُلایا گیا ہے اور جو نعمت ملی ہے اُس میں رہ کر لوگوں کی خدمت کر سکیں اور دوسروں کے معاملات کو سننے کی خارش کان سے ختم ہو جائے گی۔

Leave a Comment